Home Page
cover of Zameen
Zameen

Zameen

Story-time With Shams

0 followers

00:00-23:54

Zameen, A short story in the Urdu Langauge by Shams Bhatti Does anyone actually own a piece of land? A reality check for those who think they do. This is one of the ten stories from my published work, "Umeed Bechta Hoon". If you would prefer to buy the book, you can order it online @ https://www.meraqissa.com/book/1729

Audio hosting, extended storage and much more

AI Mastering

Transcription

محترم سامین و ناظرین سٹوری ٹائم ویڈ شمس میں خوش آمدید آج کی کہانی زمین لے کر حاضر ہوں یہ کہانی میری اشارت شدہ کتاب امید بیشتا ہوں کہ دس کہانیوں میں سے ایک ہے امید ہے کہ آپ کے عدبی ذوق پر پورا اترے گی آپ کے کومنٹس ہی زیادہ راہ رہیں گے اگر آپ کتاب خریدنا چاہیں تو تفصیل نیچے موجود ہیں آج کی کہانی زمین سارے زندگی ہوگی چوڑڑی صاحب آپ کی خدمت کرتے ہیں نہ تو میری حالت بدلی اور نہ ہی آپ کی عادت خدمت کا نشہ ہو گیا ہے روٹی ملے نہ ملے خوش آمد کی چوپڑی سے ہی پیٹ بھر لیتا ہوں سارے زندگی ہو گئی تجھے اس گھر سے کھاتے ہیں نہ تو تیرا پیٹ بھرا اور نہ ہی نظر خدمت کرتا ہے تو عجرت بھی تو لیتا ہے کون سا عیسان کرتا ہے چل اب بولنا بند کر اور پاؤں دوبارہ شروع کر کبھی سوچتا ہوں چوہدی صاحب اگر میری بھی آپ کی طرح اتنی زمین ہوتی تو میں بھی نوکر چاہ کر رکھتا عیش سے رہتا حکم چلاتا بات بیبات بیست ہی کرتا بس کر شیخ چلی کی اولاد اب ایک لفظ بھی بولا تو یہاں سے نکال دوں گا میں جاؤں گا نہیں صاحب اس مقبرے میں میرے سوا آپ کے ساتھ ہے ہی کون دولت ہے کہ تھاتھیں مارتی پھیرتی ہے اور خرشنے کے لیے کوئی ہے نہیں اس جہنم کی آپ کو لوگوں میں باندھ دو تھنڈی ہو جائے گی بس اب خاموش ہو جا بہت بول لیا تو نے سن لیا کرو صاحب اور مانگتا ہی کیا ہوں بولو ٹانگیں دباؤں یا بازو ٹانگیں دبا دے بس پرنڈی والا حصہ آج بہت درد کر رہا ہے رحمیں کل مسجد میں کس کی فوضی کا اعلان ہو رہا تھا کون مر گیا ماسین جلہ آہ ولایت پولی کی بیوہ عید گاہوالی گلی میں رہتی ہے اس کے کفن دفن کا کوئی انتظام کیا کسی نے کوئی مسئلہ نہیں سرکار اس کا لڑکا سعودی عرب میں ہوتا ہے ریال بہت بھیجتا ہے بس خود نہیں آتا ہر سال اور زمین خرید دیتا ہے بڑی عزت ہو گئی ہے ان کی اب کمی نہیں رہے عجیب رنگ ہے زمانے کے چوزری صاحب جس کی کمائی کی چہل پیل ہے اسے چھٹی نہیں ملتی وہ بھی آپ کی طرح کسی خالی کمرے میں اپنی دولت اور ماں کے آخری دیدار کو ترازوں میں رکھ کے بیٹھا ہوگا دولت کا پڑلا بھاری ہی رہے گا ہمیشہ رہتا ہے یہ رزق کی تلاش میں پردیش جانے والے کے ساتھ کچھ اچھی ہوتی نہیں صاحب لوگ ان کی کمائی کو محنت کی کمائی سمجھتے ہی نہیں اسے ضائع کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں ان توجہ کے بھوکوں کو بھی شیخی بگاڑنے کی ایسی لط پڑ جاتی ہے کہ قرض لے کر مہنگے تحفے لاتے ہیں اور جالی روب ڈالتے پہتے ہیں ظلم تو یہ ہے کہ ماں باپ بھی دیسی بچوں کے ساتھ دیتے ہیں آپ کو افتخار یاد ہے اچھو کمار کا رگا دس سال بعد پسلے مہینے دبیع سے واپس آیا تھا جب ماں باپ سے پیسوں کا پوچھا تو بیچارے پہ قیامت ہی ٹوٹ پڑی اس کا ایک نکٹو بھائی ہے اس نے کسی فرادیہ کے ساتھ کاروبار میں ساری رقم لگا دی شروع میں تو سب اچھا تھا لیکن چھ مہینے کے بعد وہ فرادیہ سارے پیسے لے کر کسی دوسرے ملک فرار ہو گیا بہت نقصان ہوا بیچاروں کا جب یہ بات افتخار کو پتا چلی تو اس نے بہت فریاد کی اس کی ماں نے اسے اپنے ساتھ پٹھایا اور بولی جب تم دونوں چھوٹے تھے اور ہم بہت غریب تھے تو پس سب کچھ بہت کم تھا کھانا کھاتے اور جب میں دیکھتی کہ کسی ایک کی پلیٹ میں سالن کچھ کم ہے تو دوسری کی پلیٹ سے نکال کر اس پلیٹ میں ڈال دیتی رات کو تم دونوں کے پاس ایک ہی کمبل ہوتا تھا میں رات پر اٹھ اٹھ کر دیکھتی تو جس کے پیر ننگے ہوتے دوسرے سے تھوڑا سا کھینچ کر اس کے پیر پر ڈھام دیتی بس اسی سوچ سے کیا جو سو کیا بھائی کمزور ہے نیت تو اچھی تھی نتیجہ اچھا نہیں نکلا اس کے بعد ابتخار نے کچھ نہیں کہا خاموش ہو گیا سچ کہتے ہیں صاحب غربت دولت کی نہیں سوچ اور مزاج کی ہوتی ہے اب سوچیں اگر اس نے انھی پیسوں سے زمین لے لی ہوتی تو دولت بھی محفوظ بہتی اور آج وہ ذمہ دار ہوتا تو چاہتا کیا ہے رحمت کوم پھر کر تیری تان بہی آکر ٹوٹتی ہے اپنی زمین اپنی کھیتی اپنا اناج زمین تو ماں ہوتی ہے نا صاحب بدبخت ماں تو ماں ہوتی ہے خریدی تھوڑی جاتی ہے پروان چڑھاتی ہے اپنے اناج سے سراب کرتی ہے اور پھر اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے اب تو ماں کی قیمت تھوڑی لگائے گا بولنے سے پہلے سوچ تو دیا کر جب ہم غریب زمین کی عرضو کریں تو آپ کا فلسفہ شروع ہو جاتا ہے اور اپنی باری مربعیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے اور میں ان مربعوں کا مالک بقول تیرے اتنا بے بس ہوں کہ ایک کمی کو چپ نہیں کروا سکتا اپنی پردیسی اولاد کو واپس نہیں لا سکتا بس اس عالی شان مقبرے کی حفاظت پر معمول ہوں چل جانے دے آج کے لیے تنہیں بات ہے اب تو جا کل صبح جلدی آ جانا ایک بہت ضروری کام جانا ہے رحمت تھکے قدموں گھر روانہ ہوگا گری میں ہوا آوارہ لڑکوں کی طرح سیٹیاں مارتی پھیتی تھی کچھ در کھلے تھے کچھ کو چکوں نے ڈھام پرکھا تھا کہیں لوحے کے مضبوط کوار تھے تو کہیں در تھا ہی نہیں مدر لوگ ہر حال میں بس رہ رہے تھے زندگی روان دھوان تھی صدری اچھا آدمی ہے خیال رکھتا ہے اکیلہ رہ رہ کر رحمت کو خود کلامی کی عادت ہو گئی تھی زمین نہیں دیتا قبر میں لے جائے گا ساری کیوں دے میں اس کا ہوں ہی کون وہ خود سے گویا ہوا ساری زندگی اسی خدمت کی ہے جب اس کی اولاد بھی چھوڑ گئی تو کس کے کاندے پر سارا کرویا ہے اگر میں نہ ہوتا تو کیا ہوتا اگر کوئی اور ہوتا اور پھر وہ خود ہی مسکرا دیا رحمت کی کہانی اس کی زندگی کی معمد بہت سادہ تھی ماں باپ بچپن میں ہی گزر گئے کچھ نام لحاظ زمین کے ٹکڑے تھے جو رستداروں نے ملے غنیمت سمجھ کر اٹھ لئے بیوی شادی کے دوسرے سال زچگی میں اللہ کو پیاری ہو گئی اور جاتے جاتے ایک رگہ دے گئی رگہ جوان ہوا تو ولائے چلا گیا اگر جاتا تو تسلیح ہو جاتی لیکن وہ تو غیروں کا ہی ہو گیا اب رہنے کی پوری کائنات چودری ایک کمرہ ایک شارپائی اور ایک سسکتا ہوا بلب تھا یہ بلب اس نے کبھی تبدیل نہیں کیا اس کی سسکیاں اسے اچھی لگتی تھیں بلب کی تڑپ کی وجہ سے کمرے میں روشنی اور اندھیرہ ساتھ ساتھ بستے تھے اس کے زندگی جی طرح صبح پوپ پھٹتے ہی وہ چودری کی حویلی چلا جاتا اگلے دن اس کے کاموں میں مصروف رہتا راڈ دھلے واپس آتا اور اگلے دن کا قصد کر کے چند گھنٹے موت کی نیند سو جاتا بس یہی زندگی تھی نہ کوئی بڑا مقصد نہ خواب ہاں عرضو تھی اپنی زمین کی عزت کی پہچان کی اولاد بھی پہچان ہوتی ہے نام زندہ رکھتی ہے لیکن اگر وہ ناہنجار نکلے تو پھر تو یوں کہیے کہ یہ عرضو ہی اس کی اولاد تھی اور اس کی زندگی کا مقصد چادری کو بھی یہ بات سمجھ آگئی تھی اور وہ اس کی باتوں کا برا نہ مانتا بس دال دیتا سو ایسے ہی ہر دن کی طرح وہ آج بھی اپنے کمرے میں واپس آیا اور بلب جلا کر اپنی چھرپائی پر آن بیٹھا اب اسے عشاء کی اعظان کا انتظار تھا اعظان سن کر نماز پڑھے بغیر سو جانا اس کا خدا سے شکب کپنہ انداز تھا اعظان شروع ہوئی اور وہ لیٹ کر اندھیرے اور رشتی میں غلط بنتھو تھی چھت کو گھودنے لگا اور پھر اندھیرا ہو گیا رحمے اٹھ جلدی کر چودی صاحب بلا رہے دروازے پر زور کی دستک اور بلند آواز سے اس کی آنکھ کھل گی کھڑکی کے باہر تو اندھیرا تھا ابھی تو پو بھی نہ پوٹی تھی وہ ہڑ بڑھا کر اٹھا اور جلدی سے دروازے کھولا دروازے پر ایک اور نوکر کھڑا تھا چودی صاحب خیر ہے مجھے معلوم نہیں چودی صاحب نے بلائی ہے جلدی کر اچھا تو چل میں آتا ہوں نہیں میرے ساتھ چل چودی کا حکم ہے اچھا چل ٹھہر میں جوتا پہن لو وہ دونوں جلدی جلدی حویلی کی طرف قدم اٹھانے لگے وہ جب چودی کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں دو اور لوگ بھی موجود تھے سلام چودی صاحب اللہ کا شکر ہے آپ ٹھیک تھا گئے میں تو پریشان ہو گیا تھا سب خیر ہے بیٹھ یہ دونوں ساتھ والے پرنوں کے نمبردار ہیں انہیں میں نے ہی بلائی ہے اچھا میری بات غور سے سن میں نے کل تیری باتوں پہ بڑا غور کیا تونے جو یہ زمین کی ریٹ لگا رکھی ہے اس کا میں نے ایک حل سوچا ہے اور پہلے تو مجھے یہ بتا کہ تجھے زمین چاہیے کیوں اپنی ذات کے لیے یا دکھاوے کے لیے کیوں کیا میرا کوئی حق نہیں ہے کہ میری لوگ عزت کریں مجھ سے مدد مانگیں میری چاکری کریں میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ تجھے زمین لوگوں کے لیے چاہیے یا اپنے لیے نہ دینے کے بہانے ہیں صاحب صبح صبح بلا کر بیزد کر رہے نہیں آج تجھے کچھ دینے کے لیے بلایا ہے ڈائیور سے کہو گاڑی نکالے ہم چاروں دریا کے ساتھ والی زمین پر چلیں گے چاروں کیوں صاحب گواں نہیں چاہیے کانونی معاملہ ہے صاحب آپ زمین میرے نام کر رہے ہیں وہ بھی دریا کنارے والی اس کی آواز میں لرزش تھی اور بے یقینی بھی سبر کر وہاں جا کر بتاتا ہوں چوہدری اٹھ کھڑا ہوا رحمہ نے حیرت سے دیکھا اور بولا صاحب آج خٹنے کے درد کو کیا ہوا چوہدری مسکر آیا اور بولا شاید کوئی اچھا کام کرنے لگا ہو وہ جب دریا پر پہنچے تو ابھی اندھیرہ تھا فجر کی اعظان ابھی نہیں ہوئی تھی اندھیرے کی چادر چاک ہونے ابھی باقی تھی وہ چاروں کار سے نکل کر ایک پگرنی پر آن رکھیں دھیمیں پڑتے اندھیرے میں کچھی بٹی کی محق لیلہاتی فصلوں کی سرگوشیاں نالے میں سرکتے پانی کی سرسراحت صبح صادق کی صدائیں دیتے ہشرات کی اہوزاری پہاڑوں سے آئے مسافر کی ماند سمندر سے ملنے کو بیتاب پلاش سے لبرز سکوت ہوا اور پتھوں کی جنگار دور کہیں ٹمٹماتا ہوا دیا اور رحمے کی امید ہر شے ہی مہوے رکھتی ایسے میں چودری کی بھاری آواز نے بولتا سکوت تار تار کر دیا گوھر سے سن کہ تُو نے کیا کرنا ہے رحمہ فوراً چودری کی طرف متوجہ ہوا ابھی اندھیرہ ہے ابھی کچھ دیر میں پو پھوٹے گی دن چڑے گا تو سب کچھ صاف صاف نظر آئے گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ تجھے زیادہ وقت دوں یہ جہاں ہم کھڑے ہیں یہ نکتہ آغاز ہے یہاں سے سیدھا چلتا جا تیرے پاس غروبِ آفتاب تک کا وقت ہے تجھے چوکور چکر کارٹ کر واپس یہی آنا ہے جتنی زمین کی گرد تُو چکر کارٹے گا وہ تیری غروبِ آفتاب پر تیرا اس مقام پر ہونا لازم ہے اگر دن کو حصوں میں بانٹ لے اور لالش نہ کرے تو کوئی مسئلہ نہیں کیا چادری صاحب یہ کیا بات ہوئی خیرات بھی دیتے ہو تو وہ بھی شرطوں پر تو خوددار شخص ہے پہلے کبھی خیرات لی ہے جو اب امید رکھتا ہے ان باتوں میں اپنا وقت برباد مت کر اب بھی چل دے ورنہ دیر ہو جائے گی معاملہ بھی تیرا ہے اور فیصلہ بھی تیرا میں یہاں انتظار کر رہا ہوں اور یہ دونوں ہماری بات کے گواہ ہیں آج تک تو محنت سے کبھی کچھ ملا نہیں لیکن آج پیش دکھاؤں گا تو اپنا ہی رازان ہو جاؤں گا یہ خوشی تو آپ کو نہیں دوں گا چادری صاحب یہ کہا اور رحمت سیدھی جاتی پکٹنی پر چل دیا شبنم میں دھولی مٹی کی سوندھی خوشبو اور میٹھی ہوا کے جھانکوں نے اس کے قدموں میں برک بھر دی وہ فراتے بھرتا چلتا گیا ابھی تو دن چھاڑا بھی نہ تھا اور اس کے قدموں نے کچھ حصہ زمین اپنے نام لکھوا بھی لی تھی اس کی پتلی پتلی ٹانگیں چابک بن کر زمین پر پڑتی رہیں اور وہ چلتا گیا خوشحالی عزت اور روشن مستقبل کے خواب سراب بن کر اس کی آنکھوں میں تیرتے رہے اور وہ چلتا رہا پو پھوٹی آسمان سیاہ سے سمندر ہو گیا اور وہ چلتا رہا جتنا فاصلہ میں نے اب تک تیہ کر دیا ہے یہ حصے میں اپنی بیٹے کے نام کر دوں گا پھر وہ میری قدر جانے گا پہلے بھی جو تھا اسی کو دے دیا پھر اس نے میری قدر کیوں نہیں کی اس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا اور قدموں میں جھول آیا مگر سنبھل گیا اور چلتا رہا ساری زندگی لوگوں کو خوش کرنے میں گزار دی لیکن جو اپنا کچھ چھوڑ کر مجھے خوش کرنے آئی تھی اس کو وقت نہ دے سکت اور پھر اس کا وقت اسے لے گیا یہ زمین کا ٹکڑا بیج کر اس کا شاندار مقبرة بنواؤں گا ایک اور آنسو ایک اور جھول مگر اس بار زیا کا حساس اس قدر شدید تھا کہ ہچکی بند گئی اور قدم لڑکڑا گئے وہ ایک لمحے کو رکا اور پھر کسی نئے جذبے سے چل دیا اس سارے قصے میں میں بھی تو ہوں میری خواہشات کا کیا آج مجھے بھی خود غرض ہو کر سوچنا ہوگا وہ کیا کہتے ہیں گورے وہ کیا کہہ رہا تھا لڑکا پچھلی دفعہ میٹائم مجھے بھی میٹائم کرنا ہے میں چلوں گا اپنے لیے اپنے وقار کے لیے اپنے مقام کے لیے اس کے قدم تیز ہو گئے اور سورج کو بھی اس کی عظم کی بھنک پڑ گئی وہ بھی اور حدث سے جل لے لگا میرا خیال ہے مجھے مر جانا چاہیے اتنا حصہ بہت ہے جہاں کچھ نہ تھا وہاں تو یہ بھہست ہے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دور چودری کا ایک دھبا سا نظر آ رہا تھا لو ابھی تو چودری بھی آنکھوں سے آجل نہیں ہوا میں کن چکروں میں پڑھاؤں وہ بوجل آواز میں بڑڑا آیا اچھا یوں ہی چودری نظر سے آجل ہو جائے گا میں مڑ جاؤں گا سورج کی حدث بڑھتی جاتی تھی اور اس کا پسینے میں شرابور جسم بھی اپنے مالک کی امام پر آگے بڑھتا جاتا تھا ذرا سی بلندی اور پھر پستی آئی اور چودری آنکھوں سے آجل ہو گیا رہ میں نے بھی اپنا رخ موڑ لیا جب رخ بدلا تو ہوا کا رخ بھی بدل گئے اب گرم ہوا کے تفیڑے اس کے چہرے کو جلسانے لگے مگر منزل کے تصور نے اس کی حمت بڑھائے لکھی اور وہ چلتا رہا کہیں مٹی گیری تھی تو اس کے قدموں کے نشان رہ گئے کہیں دھول پر پڑے تو مٹی کے ذروں میں ذرا سا ارتاح پیدا ہوا دھول چھن سے اڑی ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ ہوا ہو اور پھر سب ساکت ہو گیا جیسے کبھی کچھ نہ ہوا ہو سورج اب ساونہ زیر پر آ گیا اور رحمے کے قدموں میں ارتاح آنے لگا ابھی تو آدھا سفر بھی نہ کٹا تھا شبنم بج چکی تھی اور زمین حدت اگل رہی تھی ایسے میں اسے ایک سایہ دار درخت نظر آیا اس نے سوچا کہ کچھ در رکھ کر سانس لے لوں کچھ توانائی سمیٹ لوں تو پھر چل دو گا پھر یہ سوچا کہ درخت کی ٹھنڈی چھاؤں ہریالی کا سکون اور ہوا کی شائستگی اسے کمزور نہ بنا دے آغوش کسے اچھی نہیں لگتی لیکن دھوب سے چھاؤں اور پھر چھاؤں سے دھوب کا سفر سدی عمر مہیت ہوتا ہے بس اسی ڈر سے کہ یہ پرسکون آغوش اسے منزل سے بھٹکا نہ دے وہ چلتا رہا سورج نے اب واپسی کا سفر شروع کر دیا تھا اشارہ تو تھا کہ آدھا وقت گزر گیا اب واپسی کی فکر کرو لیکن خواہشات کو کون سمجھائے اس نے سوچا کہ جتنا سیدھا چلا تھا اتنا تو بائیں چلنا ہی چاہیے تب تو مقصود چودری کو پیچھے چھوڑنا تھا اب کس عرض کو منزل بنایا جائے دور دھندلے کے میں اسے ایک پھلدار درخت نظر آیا جس پر خوب نکھار آیا تھا لوکے تھپیڑے اس کے جوبن کے آگے بے بست تھے سبز پتے اور پھلوں سے لڈی ڈالیاں مخروطی ٹہنیاں اور زمین پر شان سے گھڑا تنہ ایک اور ہی دنیا کا پتہ دیتے تھے رحمہ نے فیصلہ کر لیا کہ یہ درخت تو اس کی زمین کا حصہ اور اس کی ملکیت بن کر رہے گا سو وہ چلتا رہا پھر وہ درخت آ لیا وہ اپنے ہیولے سے بھی کہیں زیادہ خوشنما خوشبودار اور پرشکو تھا رحمہ اپنے آپ کو اس دل فریب تھنڈی یا گوش میں جانے سے نہ روک سکا اور اس کی چھاؤں میں نہا گیا سلسلاتی دھوپ جیسے اس کی فصیلوں تک آ کر ٹھہر گئی رحمہ کا جی چاہا کہ تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ جائے سانس لے لے کچھ پھل کھالے کچھ زادہ راہ کٹھا کر لے پانی نہ سہی پھلوں کا رکھی چک لے لیکن منگل تو دھوپ میں تھی اس نے سوچا کہ جب یہ خوشنما درخت بھی اس کی زمین کا حصہ ہے تو زمین ہی زیادہ اہم ہوئی نہ اس نے درخت کے تنے کو پیار سے چھوا اور سرگوشی میں بولا کہ تم اب میری ملکیت ہو ایک دن ہی کی دو بات ہے میں لوٹ کر آوں گا اور پھر تمہیں مجھ سے کوئی جدا نہیں کر سکے گا درخت بس خاموش رہا اور رحمہ نے رخ موڑ لیا اثر کا وقت ہو چلا تھا اب تو غلطی کے کوئی گونجائش تھے ہی نہیں وقت کم مقابلہ سخت ڈھلتا سورج اور منزل دور راستے میں لیلہاتے کھیت بنجر سیم زدہ زمین بوٹیوں سے اٹی پکڈنگیاں لوہا خون سروٹے اپنی مستی میں مگن مویشی اور بلوں میں روپوش ہوتے ہشرات آئے اور گزر گئے رحمہ اسی گمان میں کیا دن ڈھلنے پر یہ سب اس کا ہوگا چلتا رہا معلوم تا کہ سراب میں اسے اپنے کمزور پڑتے قدموں سوک کر کانٹا ہوتے حلق اور پسینے سے دھندلاتی آنکھوں کا خیال نہیں آیا منزل کو پانے کے لیے قربانیاں تو دینی پڑتی ہیں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا تو پڑتا ہے وہ خود سے ہمکلام رہا اور چلتا رہا اور پھر بائیں جانب اسے چودری کا دھندلہ حیولہ نظر آنے لگا اب وقت تھا کہ وہ اپنا رخ بھی موڑ لے لیکن اس نے حساب لگایا کہ اگر وہ سو قدم گن کر اور چلے تو اس کے حصے میں کتنی زمین کا اضافہ ہوگا اس نے سوچا کہ اتنے سے لالج کا تو وہ بھی حقدار تھا سو چلتا رہا وقت بہت بے رحم ہے اسے کسی کی مجبوری، ضرورت، محنت یا حمد سے کوئی سرکار نہیں اسے تو بس گزر جاتا ہے اور واپس نہیں آتا قانونِ قدرت ہے سورج اب کچھ زیادہ ہی تیری سے غروب کی طرف رہا دواتا عجیب قصہ ہے تلوے آفتاعب سے لے کر زہر تک ایسے لگتا ہے کہ دن کبھی ختم ہی نہ ہوگا روشنی یوں ہی پھیلتی رہے گی ہرارت یوں ہی بنی رہے گی اور قسمت کا ستارہ یوں ہی بلنیوں کو چھوٹا رہے گا زہر سے اثر تک کا وقت میں سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بات وہ نہیں رہی دوسری جانب کا صفحہ شروع ہوا روشنی برقرار رہتی ہے لیکن حدت ماند بڑھ جاتی ہے اثر سے مغرب تو جیسے ایک ہیولہ ہے ایسا لگتا ہے کہ سورج کو ڈھلنے کی جلدی ہے تلوہ کے وقت کی تاریخی میں سرخ رنگ کی جھانکتی روشنی سے لے کر غروب کی سرخ روشنی کی تاریخی میں دفن ہونے تک کا سفر ہر بار کٹتا ہے اب کوئی نہ سمجھے تو قصور کس کا ہے چودری کے ہیولے کا روپ اب نکھنے لگا تھا روشنی بھی ماند پڑھنے لگی تھی میں وقت سے پہلے منظر پر پہنچ جاؤں گا رحمہ کمال بینیادی سے کویا ہوا اب منظر دور نہیں جس خواہش کو تمام عمر سرہانے ترے رکھ کر سویا ہوں آج وہ حقیقت بننے کو ہے رحمہ کی روح مچل رہی تھی لیکن روح تو لافانی ہے اس پر تو وقت لاغو ہی نہیں ہوتا ہاں مگر جسم اس کی بات کچھ اور ہے رحمہ کو تھکاوت اور پسینن سے الجن ہونے لگی سر پر رکھی پگ اور پچھلی عید پر سلوایا کرتا بوجھ لگنے لگے پھر ایک جھٹکے سے اس نے انہیں اتار پھینکا بس ایک چادر رہ گئی سطر چھپانے کو لڑکھڑاتے قدموں سے وہ آہستہ آہستہ اپنی منظر کی طرف بڑھتا چلا گیا سورج کی آخری کرنوں میں چودری واضح نظر آنے لگا بس ذرا سی حمت اور پھر سب تمہارا اس نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر اسی لحظے اس کی دائم پھینکی ایسی اکڑ گئی جیسے لکڑی کی بنی ہو درت کی شدت سے رحمہ وہی بیٹھ گیا چودری کا اکس اس کی آنکھوں میں تیر دن لگا آج نہیں آج نہیں وہ تڑپ کر اٹھا اور ایک آہ کے ساتھ پھر بیٹھ گیا فاصلہ کم رہ گیا تھا اس نے باقی ماندہ حمد سے میٹی اور کوہنیوں کے بل رنگنا شروع کر دیا کبھی خراش آئی کبھی کانٹا چبھا کبھی کچھ اچھک کر آنکھ میں آ گرا لیکن وہ رینتا رہا اب وقت کا گرداب اور اس کی کوہنیاں مدد مقابل تھی چند قدموں کی تو بات تھی لیکن سورج ڈوب گیا اور وقت ختم ہو گیا اس کی ڈوبتی سانسیں زمین پر گرد اڑانے لگیں پھر بسارت نے ودا کہا سمات کی لڑی ٹوٹ رہی تھی کہ اسے قدموں کی چاپ سنائی دی پھر چودری کی آواز یہاں ایک قبر کھو دو اور اسے دفنا دو بس اسے اتنی زمین درکار تھی پرہمے کے چہرے پر کسی بہت بڑے راز کی افسحہ ہونے کا سکون تھا لیکن دیر سے وقت ایک ازا آ چلا تھا آخری ہچکی سے پہلے اس نے جو آخری آواز سنی وہ موزن کی ازان تھی جو ہمیشہ کی طرح اسے بھلا رہا تھا اس نے اپنے جسم میں جنبش محسوس کی اور آنکھیں کھول دی سسکتے بلک کی تڑکتی روشنی میں اس کے کمرے کی چھت غلط مدد ہو رہی تھی

Listen Next

Other Creators