Home Page
cover of Umeed Bechta Hoon
Umeed Bechta Hoon

Umeed Bechta Hoon

00:00-21:42

Ummed Bechta Hoon: A short story in the Urdu language by Shams Bhatti In a darker corner of the Lahore Railways Station, I met a man who changed my perception of luck, hope, and destiny. This story is one of the ten stories from my published work, "Umeed Bechta Hoon." If you would prefer to buy the book, you can order it online @ https://www.meraqissa.com/book/1729

13
Plays
0
Downloads
0
Shares

Transcription

The story is called "Omeed Bistah" and it is one of the ten stories in the book with the same name. The author has a personal connection with this story and hopes that it will be appreciated by the readers. The story is set in Lahore, near the Deewa Haveli, built after the 1857 war. The author describes the chaos and noise of the city and how the haveli stands as a symbol of the struggles and sacrifices of the people. The haveli has witnessed the dreams and aspirations of the people, as well as their pain and suffering. The author reflects on the history and significance of the haveli and how it continues to be a part of people's lives. The author shares a personal experience of waiting for a friend at the railway station and observing the people around him. He reflects on the interconnectedness of people's lives and the impact of their choices. The author contemplates the value of change and the fear and محترم سامین و ناظرین سٹوری ٹائم ویڈ شمس میں آپ کو خوش آمدید آج جو کہانی اپی فیدمی میں پیش کرنے جا رہا ہوں اس کا نام ہے امید بیشتا ہوں یہ کہانی میری کتاب امید بیشتا ہوں کی دس کہانیوں میں سے ایک ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کتاب کا نام اسی کہانی کے نام پر رکھا ہے تو اس کہانی سے بحثیت لکھاری کچھ الگ سا رشتہ ہے امید ہے کہ یہ کعوش آپ کے عدوی ذوق کے شاید آنشان ہوگی آپ کے کومنس، حوصلہ افضائی اور رہنمائی کے لیے بہت ضروری ہیں آپ کا لائک کرنا، سبسکرائب کرنا اور بیل آئیکون پر کلک کرنا مجھے اپنی کعوشوں کو جاری رکھنے کے لیے آپ کی پسندی دیدی کا اظہار ہے اگر آپ یہ کتاب خریدنا چاہتے ہیں تو تفصیل نیچے ڈسکریپشن میں موجود ہے چلتے ہیں ہم کہانے کی طرف آج کی کہانی امید بیشتا ہوں 1857 کی جنگِ آزادی کے فوراً بعد تعمیر ہونے والی یہ دیو ہیکل بریلوے سٹیشن کی عمارت آج تک لاہور کی فصیلوں کے باہر کھڑی ہے لاہور شہر سب سکائی کی ماند اس کے چاروں طرف پھیلا ہے آوازوں کا توفان برپا ہے سرمائی دھوئے کی تہہیں ہیں اور آوارہ کبھی نافنا ہونے والے پلاسٹک کے تھیلے موجوں کے ساتھ مہہوے رکھس ہیں اس قلعہ نماآ امارت کی تعمیر کا مقصد تو آزادی کی بزید تحریکیں کچلنا تھا مگر جیسا کہ خدا کا نظام ہے کچلنے والے بھی نہ رہے لیکن کچلے جانے والے پیچھے چھوڑ گئے اس امارت نے بہت تحریکیں دیکھی گولیوں کی ترترہت سے توپوں کی گھنگرش تک برداشت کی انگریزی کے حکم بھی سنے اور اردو کی سسکیاں بھی فارسی کے وداعیہ نوحے بھی جھیلے اور ہندی کی سرگوشیاں بھی یہی وہ جگہ تھی جہاں ہندوستان کے طول و عرصے مطوالے موج در موج ایک نئے وطن کا خواب دل میں سجائے آئے اور سلے میں قرارداد پاکستان کی سوغات لے کر گئے اور پھر انہی درو دیوار نے خون میں لطپت بوگیوں کو اپنے سینے پر آ کر رکھتے دیکھا یہی امارت تاریخ انسانی کی سب سے بڑی حجرت کا محور بھی ٹھہری اس خاموش تماشائی نے پاکستان بنتے ہنستے، مسکراتے، پھلتے پھولتے اور پھر زخمی ہوتے، چلاتے اور آخر ٹوٹتے بھی دیکھا ان خاموش دیواروں میں صدیوں کی تاریخ پناہ ہے آج بھی اس کی پہلی جیسی بل کھاتی رگوں پر اسدہیں پھونکارتے ہوئے آتے ہیں اور چنگھانتے ہوئے چلے جاتے ہیں کئی امیدیں، کئی خواب ایک لمحے کو اس کی گود میں پناہ لیتے ہیں اور پھر چاروں نہ چار وقت کے گرداب میں کھو جاتے ہیں یہ سنگلاکھ دیواریں آنے والوں کے کہ کہے اور جانے والوں کی سسکیاں سنتی ضرور ہیں مگر خاموش رہتی ہیں ان کا کام نہ تو آنے والوں کو مایوس کرنا ہے اور نہ ہی جانے والوں کو روکنا یہ تو گردش وقت کا ایک مورا ہے ایک لمحہ ہے جو کسی کی ابتدا اور کسی کی انتہا بنتا ہے میرے ایک دوست کراچی سے آنے والا تھا اس کو لینے لاہور کے ریلیو سٹیشن پہنچا مجھے اس سے ملنے کی جلدی تھی سو ایک گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا ہاں البتہ ریل گاری کو ایسی کوئی جلدی نہ تھی اس لیے اس کی آمد میں دو گھنڈے تاخیر تھی لوگوں کے بہنگم حجوم سے بچتا بچاتا پلیٹ فارم پر پہنچا ایک کونہ کچھ خالی نظر آیا تو اس کی طرف ہو لیا چائے والے سے چائے لی اور میں وے تماشا ہوا ہم اپنی ہوا سے خمسہ کے معاملے میں بھی خود غز واقع ہوئے ہیں ہم وہی دیکھتے ہیں جو دیکھنا چاہتے ہیں وہی سنتے ہیں جو سننا چاہتے ہیں آنکھ کا دریچہ کھلا ہو تو کرنیں بلا امتیاز نقش بناتی ہیں ان منتشر نقوش میں سے ہم وہی دیکھتے ہیں جس پر ہماری نگاہ مرتقز ہو مگر یہ نقوش تو بلا امتیاز بنتے ہیں قانونِ خدرت ہے روشنی کی ہر کرن اپنے ساتھ ایک بسری پیغام دے کر آتی ہے اور آنکھ کے پردے پر ثبت کر دیتی ہے ہمارا ذہن یہ تمام مطا سمیٹ لیتا ہے اور محفوظ کر لیتا ہے پھر انھی مخفی نقوش کو ترپیب دے کر کبھی خواب بنتا ہے کبھی سراب بکھیرتا ہے تو کبھی مستقبل تراشتا ہے اسی طرح ہر لمحے لا محدود آوازیں بھی ہمارے سمات کی چادر پر دستک دیتی ہیں اور محفوظ ہو جاتی ہیں اب اس پونجی کو لا شعور کا گرداب کہہ لیجئے یا مشاہدے کا سمندر یہی وہ بخیہ ہے جو ہماری ذات بنتا ہے اور ہمارے لئے زندگی کی راہیں متعین کرتا ہے ہم سب انسنی ان کہی کہانیاں ہیں جن کے محض چند اوراک ہی لوگوں پر آیا ہوتے ہیں بہت سی کہانیاں تو خاموشی سے جانے والوں کے ساتھ ہی چلی جاتی ہیں لاہور کا یہ ریلویس ٹیشن انہی ان کہی انسنی کہانیوں کی آماجگاہ ہے معاملہ نقطہ نظر کا ہے اگر ریل کے ڈبے میں اپنی نشفت پر بیٹھ کر باہر دیکھو تو لگتا ہے جیسے پلیٹ فارم پر کھڑا ہر شخص کسی استراب میں مبتلا ہے کسی کو گاڑی چھوٹ جانے کا ڈر تو کسی کو اپنے پیارے کوئی منزل کے انجانے خوف میں مبتلا تو کسی کی آنکھوں میں نئی منزلوں کی تلاش کی بیچینی یہاں تک کہ سالوں سے آواز لگاتے چھابے والے چائے والے اور دوسروں کے بوجھ میں برکت تلاش کرتے کلی سب ہی استراب میں مبتلا آتے ہیں ایسے میں اگر کوئی مسافر اپنے پیاروں کو گاڑی میں بٹھا کر نیچے اترے تو کمال کا منظر پیش کرتا ہے خود بے چین ہے اور ان کو ہاتھ ہلاہی لا کر تسلیان دیتا ہے یہ کچھ کھو جانے کا خوف ہماری ذات سے ایسا نتھی ہوا ہے کہ قبر تک نہیں چھوڑ دا نشست پر آرام سے براجمان اس مسافر کے لیے باہر شور ہے اور اندر سکون اس طرح سفر کا نہیں منزل کا ہے اس بے ہنگم دنیا میں کسی بات کا یقین ہونا بھی بڑی نعمت ہے ٹکٹ لی لی نشست مل گئی اب تو بس منظل باقی ہے سفر تو کٹھی جائے گا اپنے ساتھ بیٹھے اجنبی مسافر زیادہ قریب لگتے ہیں اور باہر رہ جانے والے کوششوں دور لیکن باہر سے تو کچھ اور ہی منظر نظر آتا ہے لوہے کے زندان میں اپنے حصے کی ذرا سی جگہ پر سہما سمتا وہ مسافر جو گھر، گھر والے اور گھرستی چھوڑ کر چلا ہے ابھی کچھ ہی لمحوں میں پردیسی یا غریب الوطن کہلائے گا بنیاد ہی تو سب کچھ ہے اپنی زمین، اپنا آسمان، اپنا گھر یہی تو ہم چاہتے ہیں پھر یہ شخص کیوں ایک غیر منحصر منظل کی تلاش میں سرگردہ ہے جب قدم جمانے کو زمین ہے تو آسمان کی وسطوں یا سمندر کی اتھا گہرائیوں کو کیوں ٹٹھولنا ترس آتا ہے اس لاچار کو دیکھ کر ہم پلیٹ فارم پر کھڑے رہ جانے والے ان کی آنکھوں میں اپنی جھلملاتی تصویریں تلاش کرتے ہیں ہمیں ہر جگہ اپنا ہی تو عکس نظر آتا ہے میری سوچ، میرے خیالات، میرے تجربات اور میرا نکتہ نظر یہی تو قابل تقرید ہے ہم سب نے اپنے ذہنوں میں ہر کول اور فیل کا ایک سانچہ بنا رکھا ہے اور سب کو اسی سانچے کے بنیاد پر پرکتے ہیں حد تو یہ ہے کہ یہ امید بھی رکھتے ہیں کہ دوسرا ہمارے سانچے کو ہی مطبع جانے گا تبدیلی ایک مشکل فیصلہ ہے انہونی کا خوف، انجانی جگہ کا وہم اور پرائیوں سے مٹھ بھیڑ کا استراب تبدیلی کی سوچ کے جزوے لازم ہیں جہاں تبدیلی کے عنامات ہیں وہاں اس کی قیمت بھی ہے بہت کم لوگ یہ قیمت دینے کو تیار ہوتے ہیں کیونکہ کبھی تو ان کی پونجی بمائے سود کے لوٹ آتی ہے اور کبھی اصل ذر بھی کھو جاتا ہے ساحب جی قسمت کا حال جانے گے اور وہ بھی صرف دس روپے میں ایک دلچسپ سی آواز نے میرے تماشے کا پردہ گرا دیا دائیں ہاتھ مٹھ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر شخص ایک مٹی سے اٹے گتے کے ٹکڑے پر برانچ مان تھا اس کے سامنے دھول کی رنگت کے کپڑے پر کچھ کارڈ الٹے پڑے تھے ان پر جو مصوری کسی زمانے میں رنگین رہی ہوگی اب صرف یاد ماضی کی ماند دھندلی تھی اس کے دائیں ہاتھ لوہے کا پندرہ دھرا تھا جس میں ایک چھوٹا سا سبز توتا اپنی مٹکتی آنکھوں سے اپنے مالے کا ہی سوال دھورا رہا تھا ایک کاغذ کا ٹکڑا، ایک پینسل، ایک گھڑا جسے ایک بسیدہ سی بوری لپیٹ کر تھنڈا رکھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور ایک لکڑی کا کالا بورڈ جس پر سفید چاک سے صرف دو صدور لکھی تھی اپنی قسمت کی فال نکلوائیے صرف دس روپے میں رینے دو یار میں تو گاڑی کا انتظار کر رہا ہوں میں نے بلا وجہ ہی اختار کر جواب دیا پہلے ہی دو گھنٹے کی تاخیر ہے تم بھی فارغ ہی نظر آتے ہو کام کیسا چل رہا ہے لوگوں کو بے وکوف بنا رہے ہو حیرت ہوتی ہے کہ آج کس ترقی یافتہ دور میں بھی لوگ تم جیسوں کے ہاتھوں دھوکہ کھا جاتے ہیں وہ تنزیح انداز میں ہسا ہے بھرے بیٹھے ہو صاحب آپ جیسے لوگ خیرات تو دیتے نہیں لیکچر اچھا دیتے ہیں خیر بڑے آدمی ہیں آپ ٹھیک ہی کہتے ہوں گے ہم ضرورت مند ہمارا گاہک ضرورت مند بھری جیب اور بھرے پیٹ کو قسمت کے کیا لینا لینا آپ جیسوں کو خدا بس دوبتے ہوئے ہی یاد آتا ہے اس کے تنز نے مجھے اس کی طرف متوجہ کر دیا بڑا فلسفہ جان رہے ہو کون بڑا آدمی خدا کی ذات کا شکر ہے جو رزاق ہے اور پردہ رکھنے والا ہے حالبتہ اس بات پر کامل ایمان ہے کہ مستقبل کا خدا کی ذات کے علاوہ کسی کو علم نہیں اللہ محفوظ کا مسننف ہے اس کے ہاتھ میں سب کی باگ دوڑ ہے میں بھی ایمان والا ہوں صاحب آپ کو کس نے یہ خبر دی کہ میں قسمت کا حال جانتا ہوں آپ ہی نے کہا تھا نا کہ خدا ہی ہمارے رز و شب کا خالق ہے تو جناب میرے ذہن میں یہ کام لگا ہے منو سلوہ بھی ملے تو بھی تگو دو تو لازم ہے اپنی رزی کے لیے کوشش کرنا سنت ہے زندگی میں اگر منزل کی جستجوع نہ ہو تو انسان اور جانور میں فرق ہی کیا رہ جاتا ہے اسی منزل کی خواہش ہی تو ہمیں سنم سے انسان بناتی ہے بس یہی میرا کام ہے میں منزل کی تگو دو کرنے والوں کو تنک کا سہارا دیتا ہوں باقی رب کی مرضی حالت فقیرینا اور بات دانشمندانا کیوں اپنی زندگی برباد کر رہے ہو جاو جا کر کوئی ڈھنگا کام کرو معاشرے کا کارامت حصہ بنو کہانیاں لکھو علم پھیلاؤ مجھے اپنے لہجے میں اس کی بات کی سچائی اور اپنے غرور کا تنس تو محسوس ہوا جسے میں نے نظرانداز کر دیا اور کیا کرو صاحب کہانیاں ہی تو لکھ رہا ہوں یہ فعالیں کہانیاں ہی تو ہیں اور لوگ نکاد کچھ یقین کر لیتے ہیں اور کچھ ہنس کر ٹال لیتے ہیں کہانی پسند آ جائے تو عجرت دے جاتے ہیں ورنہ گالی مگر ضمیں کام لگا ہے سو کر رہا ہوں اپنے حصے کا رسک مل جاتا ہے گھر کا چولہ جل رہا ہے کام چل رہا ہے تم لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو جھوٹ بول رہے ہو ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے ہو ان کے جذبات سے کھیل رہے ہو ان کی کمزوریوں کو کاروبار کر رہے ہو حرام کماتے ہو حرام کھاتے ہو میرے لہجے کی کاعٹ بے رحم تھی چلیں دیکھتے ہیں اس نے سکون سے جواب دیا آپ کے پاس بھی وقت ہے میرے پاس بیٹھئے ہو سکتا ہے کہ کوئی خدا کا بندہ آ ہی جائے خود ہی ملاظہ کر لی جائے گا ورنہ میرے تاثروں کا سانچہ تو آپ نے تراش ہی رکھا ہے ہاں ایک گزارش ہے اگر کوئی آ ہی جائے تو اپنے لفظوں کے موتی اس کے جانے تک سنبھال کر رکھئے گا اس نے ایک مٹی سے اٹھا گتے کا ٹکڑا میری طرح بڑھایا جسے میں نے جھاڑا اور اس کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا کہ وہ مجھے میہ میں ٹھکے گنوانے لے گا خدا جانے انسان کی جانور کے ساتھ اتنی افحام و تفہیم کیسے ہو جاتی ہے نہ زبان کی مماثلت نہ ثقافت کا رشتہ نہ مذہب کا بندن اور نہ ہی خون کی تقلید لیکن یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے مجھے تو فال کے پتے محر دکھاوا ہی لگے اصل کمال تو توتے کا تھا بحیثیت انسان ہم انسانوں پر ذرا کم ہی یقین رکھتے ہیں شک رہتا ہے شاید اس لیے کہ ہم اپنے آپ کو اچھی طرح سے جانتے ہیں جب ایک بذرر پلندہ فال کا پتہ اٹھاتا ہے تو اس کی معصومیت پر کسی کو شک نہیں ہوتا ہمارا اس سے لین دین کا کوئی تعلق نہیں اسے ہم سے ہمارے ماضی ہماری خامیوں اور خوبیوں یہاں تک کہ ہمارے مستقبل سے بھی کوئی سروکار نہیں اس کی آنکھوں میں ہمارے لیے جذبات کی ردتی تک نہیں اسے ہمارے نمود و نمائش کی کوئی پرواہ نہیں شاید اس لیے ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں اسے معصوم کے لقب سے اس لیے نوازتے ہیں کیونکہ وہ ہماری اصل نہیں جانتا انسان ہمیشہ اس سے ڈرتا ہے جو اس کے باطن سے واقف ہو بھائی کیا قسمت کا حال بتاتے ہو ایک تھکی ماندی آواز نے ہم دونوں کو چونکھا دیا نہیں بھائی میں کون ہوتا ہوں قسمت کا حال بتانے والا ہاں البتہ خدا کے حکم سے یہ معصوم توتا فال نکالتا ہے میں تو محس پڑھ کر سنا دیتا ہوں فال والا گویا ہوا اس کا لہجہ جذبات سے آری تھا کتنے پیسے لوگے مسافر نے استفسار کیا قیمت تو لکھی تھی بورڈ پر شاید نہ پڑھ سکتا ہو دس روپے فال والے نے جواب دیا بہت زیادہ ہیں ایک نحیف سے جواب آیا کیا کریں بھائی پیٹ کا دوزک ساتھ لگا ہے اور آپ ہی وسیلہ ہیں پھر اس میہ مٹھو کے نخرے بھی تو اٹھانے ہوتے ہیں اس بار اس کے لہجے میں ہلکی سی کھنک سنائی دی آدمی جلاک ہے میں نے سوچا مکڑی کی طرح جھالا بن رہا ہے اچھا چلو یہ لو دس روپے بتاؤ کیا لکھا ہے میری قسمت اس مسافر کے الفاظ ہارے ہوئے جواری کے پتوں کی معنی مٹیالے کپڑے پر بکھر گئے فال والے نے فورا دس روپے اپنی جیب میں ڈالے اور بولا فال نکالنے سے پہلے ایک بات اچھ ترہ سے سمجھ لو مجھے معلوم نہیں کہ تمہاری فال میں کیا لکھا ہے جو لکھا ہوگا وہی بول دوں گا جھوٹ نہیں بولوں گا چاہے تمہیں برا لگے ٹھیک ہے مسافر نے اس بات میں سارے ہلا دیا پانی پیو گے فال والے نے ایک دن سوال داگ دیا میں اور مسافر دونوں ہی اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگے پانی پیو گے اس نے مسافر سے پھر پوچھا ہاں مربانی اس کی ہاں کی گرم جوشی اس کا پیاسہ ہونے کی تصدیق کرتی تھی فال والے نے گھڑے سے ایک گلاس پانی بھرا اور اسے دے دیا جسے وہ گھٹا گھٹ پی گیا کیا نام ہے تمہارا افتخار کہاں سے آیا ہو جنگ سے جنگ شہر سے نہیں اس کے نزدیک ہے اس قصبہ ہے وہاں سے لاہور میں کوئی ہے نہیں اکیلا ہی آیا ہوں ماں باپ شادی ہو گئی نہیں ابھی نہیں افتخار جو اب تک سر جھکاے بیٹھا تھا ایک دم چوکنا ہو گیا اس نے سر اٹھایا اور فال والے کی آنکھوں میں جھاکنے لگا تم یہ سب سوال کیوں پوچھ رہے ہو اس کا لحظہ سرد تھا تم لاہور پہلی بار آئے ہو پھر یہ نہ کہہو کہ لاہوریوں نے پانی بھی نہیں پوچھا فال والے نے نرم لحظہ اور چہرے پر دھیمی مسکرات تھی افتخار پھر پھر زمین کو گھرنے لگا چل بھائی میہ میٹھو اپنے افتخار بھائی کی قسمت کا حل بتا نکال اس کے حصے کی فال اس نے پنجے کا دروازہ کھولا اور ایک سوکھی ٹینی آگے بڑھائی میہ میٹھو بڑی شان سے اس ٹینی پر سوار ہو گیا اور فال والے نے اسے فال کے پتوں کے قریب کپڑے پر اتار دیا اب میہ میٹھو نے ہلکے ہلکے سے ٹہلنا شروع کیا وہ ہر پتے کے پاس رکھتا اور آگے بڑھ جاتا ایک چکر دوسرا چکر افتخار کی آنکھوں میں بے چینی اور اتراب بڑھتا چلا جا رہا تھا تیسرا چکر اور پھر وہ ساتھوے نمبر پر پڑے فال کے پتے کے پاس رکھ گیا اس نے اپنی چوند سے وہ پتہ اٹھایا جسے فال والے نے بڑی تندہی سے اچھک لیا اس نے پتے کو ہاتھ میں پکڑا اور اسے غور سے پڑھنا شروع کیا جیسے اس پر موجود آڑی تیسری لکیروں اور ہنسوں کو مانی پینا رہا ہو پھر اس نے پینسل اٹھائی اور کاغذ پر کچھ لکھنے لگا آخر میں اس نے کارڈ اور کاغذ دونوں ہی اپنی جگوں پر واپس رکھیں اور کھنکار کر سیدھا بیٹھ گیا اس کی نم آنکھوں میں ایک کائنات تھی جیسے صدیوں کو سفر کر کر آیا ہو کیا لکھا ہے؟ افتخار نے حلکے سے پوچھا جیسے خود بھی جواب سے خوفزادہ ہو مگر فالوالا خاموش رہا کیا لکھا ہے؟ اس بار افتخار کے لہجے میں ترشی کا تڑکا تھا پہلے تین مہینے بہت مشکل ہے فالوالا ایسے بولا جیسے کوئی افریت ہو رزق میں تنگی ہے شاید کچھ لوگ بھی دھوکا دیں بہت کڑا وقت ہے لیکن یہ ایک امتحان ہے ان تین مہینوں کے بعد خیر ہے خدا کی رضا سے سب ٹھیک ہو جائے گا اگر تم حمد کرو دعا کرو اور کوشش کرو تین مہینے بوچ کے ہیں اٹھا سکتے ہو تو وہ راہ لہور نہیں اٹھا سکتے تو اگلی گاڑی سے لوٹ جاؤ افتخار جیسے بتسا بن گیا اس کی ایک دوسرے سے نبردازمہ انگلیاں اس کے اندر کی کشم کش کی آئینہ دار تھی اس کا سر ابھی بھی اتنی دلیل اس کا سر ابھی بھی چھکا تھا مگر بدن میں تناؤ تھا وہ ہلکہ ہلکہ ہل بھی رہا تھا جیسے برجت کی عالم میں ہو پھر اگلے ہی لمحے وہ اٹھا اس نے فال والے کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے ریلوے سٹیشن کے برامدے سے ہوتا ہوا لہور کی بھیڑ میں گم ہو گیا یہ تم نے کیا کیا میں نے الج کر پوچھا ایس شخص جو پہلے ہی مجبور تھا تنگ دستی کا شکار تھا تم نے اسے بھی دس روپے چھین لی یہ کہاں کی انسانیت ہے یہ خودگرزی فریب جرم بول لیا اس کی آواز جیسے کسی سرد خانے سے آئی ہو اب سنو یہ شخص گھر چھوڑ کر آیا ہے ماں چھوڑ کر آیا ہے سر کا سایا اور بھوک کی دواغ چھوڑ کر آیا ہے کچھ تو مجبوری رہی ہوگی ہم میں سے بہت سے لوگ اس مجبوری میں بیٹھنے کے لئے بے شربی سے جیے جاتے ہیں مگر یہ نہیں یہ کچھ کرنا چاہتا ہے آگے بڑھنا چاہتا ہے منزل کی خواہش ہے مگر اس کا تائین نہیں جسم تیار ہے لیکن ذہن خالق شار کا شکار ہے ابھی تو یہ اپنے فیصلے پر پشمہ ہوگا راتوں کو چھپ کر روے گا کسی جاننے والے کی بھیر چڑ جائے گا شاید کسی سڑک کے اتنارے پر سوتا بھی ملے نوکری کے لئے التجائیں کرے گا ابھی تو اسے سچ مچ کی افلاس اور مجبوری کا مطلب بھی معلوم نہیں اس سب کو تیاغنے کے لئے وقت چاہیے سہارا چاہیے رونے کو کاندھا اور بہلانے کو آسرا چاہیے نہیں ہے اس کے پاس آپ کو بھی معلوم ہے کہ نہیں ہے اس کے پاس جنابِ علی اس گندے کپڑے سے یہ تین مہینے کا راشن لے کر اٹھا ہے اس نے مان لیا ہے کہ تین ماہ تو عذیت کے ہیں لیکن پھر برکت ہے اور یہ فیصلہ اس نے خود کیا ہے میں نے تو فقط انتخاب کی سہولت دی ہے آپ کہتے ہیں کہ میں نے یہ ظلم کیا جرم کیا میں نے تو دس روبہ میں امید بیچ دی ہے اگر آپ میں حمد ہے تو قیمت لگائیں کیا آپ محسوس ہیں اگر آپ محسوس ہیں تو قیمت لگائیں کیا آپ محسوس ہیں اگر آپ محسوس ہیں تو قیمت لگائیں کیا آپ محسوس ہیں اگر آپ محسوس ہیں

Listen Next

Other Creators