Details
ek free lancer aur jin ki dilchasp kahani aj ky aladin ki kahani
Big christmas sale
Premium Access 35% OFF
Details
ek free lancer aur jin ki dilchasp kahani aj ky aladin ki kahani
Comment
ek free lancer aur jin ki dilchasp kahani aj ky aladin ki kahani
Hamza, a freelance designer from Karachi, was extremely stingy and wanted to make millions in the freelance world. However, he wanted everything for free. Despite having an outdated freelance ID, his friends helped him with projects. But when it came to paying, Hamza was reluctant and cheap. He didn't have any vision or willingness to invest in his team. Instead, he collected junk to sell. One day, Hamza heard the sound of a garbage collector while craving a burger. He stopped the collector and sold his junk to him. This incident made Hamza realize his own cheapness. He decided to change and started taking on bigger projects, but he needed a team and money. His stinginess reached its limit when he demanded 500 rupees for junk. The garbage collector refused, and Hamza threatened him. The collector warned Hamza not to enter his street again. Hamza's reputation spread, and even the neighborhood dogs started following him. One day, Hamza's cheap ہمزہ ایک فری لانسر ڈیزائنر ہے جو کراچی سلدانی ٹون کے علاقے میں رہتا تھا نہائیتی کنجوز اور بخیل لڑکا تھا وہ فری لانسر کی دنیا میں لاکھوں کمانا چاہتا تھا مگر اس کی سوچ چھوٹی تھی وہ چاہتا تھا ہر کام اس کو مفت میں مل جائے حالانکہ فری لانسر میں اس کی آئی ڈی پورٹ ہولیو بہت پرانا تھا اس کے دوست بھی اچھے تھے جو پروجیکٹ میں اس کی مدد کرتے تھے لیکن جب پیسے کی باری آتی ہے ہمزہ کی چاند نکل جاتی ہے وہ پیسے دینے میں بہت ہی کنجوز تھا اس کے دوستوں کے مطابق بلکہ یہ حقیقت بھی تھی اس کے پاس ویجن نام کی کوئی چیز نہیں تھی سب کچھ خود ہی لے لوں اپنی اسی سوچ کے نظریے وہ تنہا ہوتا گیا تھا نتیجن کہاں وہ سو ڈالر کا کام پکڑتا اب کرتا پھر تھا چالیس اور پچاس ڈالر کے کام پر آ گیا تھا بڑے کام کے لیے بڑی ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ٹیم کو پیسے بھی چاہیے ہوتے ہیں جو ہمزہ کی جیب سے نہیں نکلتے تھے اس کی کنجوزی کی انتہا یہ تھی وہ کچھرہ بھی جمع کرتے رکھتا تاکہ ٹیم ڈبے والے کو بیچ سکے ایسی اس کے پاس کولڈنگ کی خالی بوتلے پانی کی بوتلے کچھ بائیک کا پرانا سامان بھوزی ٹکڑوں کا ڈھیر جمع ہو گیا تھا ایک دن اس کو برگر کھانے کا دل ہوا گلی میں سے ٹیم ڈبے والا کباڑی والے کی آواز آئی اس نے اس کو روکا اور اپنا سارا کچھرہ جو اس کو سرمایہ سمجھتا تھا کباڑی کو بیچنے لگا اتفاق سے کباڑی کا ٹھیلا پہلے ہی پرانے سامان سے بھرا ہوا تھا اس نے ہمزہ سے جان چھوڑانی چاہیے اور سامان کا منع کرنے لگ گیا وہ نہیں لے گا تو ہمزہ نے اس کو دھمکی دی وہ گلی میں کل سے اسے نہیں آنے دے گا کباڑی پھز گیا اسے پتا تھا ہمزہ کے پاس کوئی کام دھندا تو ہوتا نہیں ہے اور وہ پارے گئے ہے تو روز ہمزہ سے چخپک ہوگی کیونکہ سرجانی کے اس علاقے میں گلی کے کتے اور ہمزہ دونوں ہی پارے ہیں کتوں سے ہمزہ کی اچھی سلام دعایا ہمزہ اس کچھرے کے پانچ سو روپے کی ڈیمانڈ کر رہا تھا تاکہ وہ زنگر برگر اور کولنگ پی لے مگر کباڑیہ دو سو سے زیادہ دینے پر تیار دہی کافی دیر بحث وہ تقرار ہوتی رہی ہمزہ کو کباڑیہ سے بحث کرتا دیکھ کے گلی کے آوارے کتے بھی ہمزہ کا ساتھ دینے لگ گئے کتوں کے بھونک میں ہمزہ کے شوڑ سے گلی میں ایک عجیب سا ماحول بن گیا تھا گلی کی لوگ کھڑکیوں سے جھاک کر یہ بحث دیکھ کے لکھت اندوز ہو رہے تھے گلی کے کتوں کو اپنے ساتھ اور کباڑیہ پر بھونکتا دیکھ کے ہمزہ اور بھی پھیلنے لگ گیا آخر کار کباڑیہ تین سو پہ راضی ہوا ہمزہ نے تین سو روپے پکڑے اور اس کے ٹھیلے پہ پرانے سمان میں سے کیتل کا میلہ کوچیلہ چراغ بھی اتھا لیا کہ لائٹ جاتی ہے تو لوڈ شیڈنگ میں کام آئے گا کباڑیہ نے اس چراغ کے پیسے مانگے تو ہمزہ نے کہا تو نے پہلے ہی تین سو دیئے دو سو جو کاٹے وہ چراغ کے کباڑیہ ہمزہ سے کچھ علشتا مگر گلی کے آوارہ کتے جو بلکل پارگ رہتے ہمزہ کا ساتھ دے رہے تھے تو اس نے خاموشی اسی میں سمجھی ہمزہ سے وہ پھڑنے بڑھ لے گا کیونکہ ابھی کتے بھی اس سے بھوک رہے تھے اس نے نکل جانے میں ہی آفیت سمجھی ہمزہ اپنی اس جیت پر بہت خوش تھا اس نے سامنے والے گھر سے رات کی بچیوی روٹی مانگی اور اپنے آوارہ کتوں کو ڈالی یہ ہمزہ کی روایتی کنجوسی تھی وہ کتوں کو روٹی بھی اڑوز پڑو اس سے مانگ کر ڈالتا تھا کتوں کو روٹی ڈال کے ہمزہ بازار کی طرف چل پڑا اس کی جیب میں تین سو روپے تھے چراخ تو وہ گھر میں پھیک چکا تھا ان تین سو روپے میں زنگر برگر تو نہیں آتا تو اس نے انڈے والا برگر اور ایک پانچ سو ایمل کی سٹنگ بوتن ہی لی بکیا پیسے سے کیپسن کی سگریڈ لی اور یہ لنچ ہمزہ کی آئیاشی تھا لنچ کے بعد ہمزہ واپس گھر پہنچا تو ہر پے معمول گھر میں پھیک نہیں تھی اس نے سوچا چلو مختے کا چراخ کو ساپ کر کے اس میں تیلی ڈالیں گے چراخ میں تیل تو سرسوں کا ڈالتا ہے مگر ہمزہ کی کنجوسی اس میں بھی آگئی پکوڑوں کے لئے پیاس فرائی کر کے اس کی ماں پکوان تیل لگتی تھی ایک برگنی میں تو ہمزہ نے تیل کا جوگارو وہاں سے کیا روی کا انتظام پڑوس کی دیوار سے گدہ پڑا تھا جو اس کے بچوں سے بھر رکھا تھا اکثر وہ گدہ کو دھوپ میں ڈالتے دھوپ لگاتے ہمزہ نے روی وہاں سے نکالی اور اپنی ہوشیاری پہ بہت خوش ہوا ہمزہ نے دس روپے والا سرف ایکسل کا ساشا لیا اور اس کو آدھا پانی میں گھولا بقی آدھا اپنے کپڑے دھونے کے لئے رکھ دیا اور چراخ کو سرف میں ڈال دیا ایک گھنٹے کے بعد چراخ کو سکوچ برائٹ سے ساف کرنے لگ گیا پھر کچن کے ساف والے کپڑے سے ایک چراخ کو رگڑ رگڑ کے ساف کرنے لگ گیا اچانک بجلی سکوندی ایک گڑ گڑا اٹھ ہوئی فضا میں دھون سا پھیل گیا جیسے طوفانی ہوا چل پڑی پھر اس دھونے میں سے ایک جن کہ کہہ لگاتا ہوا نمودار ہوا اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے تھے قد کمرے کی چھت تک جا رہا تھا مگر جن ایسا لگ رہا تھا جیسے نہا کر باہر نکلا ہو اس کے جسم سے پانی ٹپک رہا تھا حمدہ ایک دم اس کو دیکھ کے دھر گیا خوف سے اس کی حالت کانپنے جیسی ہو گئی بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ کانپے ٹانگ گئی اس کی حالت بہت بری تھی اس کی اپنی پینٹ گیلی گیلی سی محسوس ہوئی بلکہ اس کی پینٹ پر بڑا سا دھپا نمودار ہوا تھا اس کا جن کو دیکھ کے پشاپ نکل گیا تھا اچانک اس قوی ہیگل جن کی دل دہلانے والی آواز فضہ میں گوجی کیا حکم ہے میرے آقا پھر جن کی نظریں حمدہ پر پڑیں اس نے ایک برا سا مو بنایا اور کہا پہلے کپڑے اور غسل کر کے آؤ یوں پینٹ میں پشاپ کر کے فقر سے کھڑا ہونا شریفوں کے لئے اچھا نہیں ہے میں خاندانی جن ہوں حمدہ جن کی بات سننے کے چھیپ گیا اور جلدی سے باطن روپ میں کھس گیا پھر نہا کر اور کپڑے بدل کر آیا ڈٹے ڈٹے جن کی طرف دیکھا جن کی آواز پھر گوجی کیا حکم ہے میرے آقا تو حمدہ نے جن سے کہا تم میری ہر بات مانوگے جن نے ہاں میں سر ہلایا تو حمدہ نے جن کو کہا نکڑ کی دکان سے ایک ویلو نسوار کی ڈبی اور آدھا پاکٹ گولڈ لیف فگریڈ لیاو جن یہ سن کے بری طرح سے چوکا اس کو کسی بڑے کام کی امید کی بڑے حکم کی کیونکہ وہ اللہ دین کے وقت سے بڑے بڑے کام کرتا ہوا آیا تھا اتنا چھوٹا اور گھٹی اگام جن کو پہلی دفعہ ملا تھا جن کو اس کام میں بڑی شرم محسوس ہوئی خیر جن نے تعمیل کی اور دوبارہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اتنے میں حمدہ کی ماں کی آواز آئی جہاں پانی ختم ہو رہا ہے گھڑا گاڑی پر جو پانی کا ٹینگ ڈالنے آتے ہیں ان کو بلا لاؤ ایک ٹنگ کی پانی کی کال دو پھر پانی چار دن کے بعد آئے گا حمدہ نے ماں کو کہا اچھا لاتا ہوں پھر جن کی طرف دیکھا جن کی آنکھیں ایک بار پھر پھیل گئی اسے یہ کام ویلو نسوار سے بھی گھٹیا لگا کہ وہ عظیم جن جو محل کے محل اٹھا کر لے جاتا تھا ایک نئے آقا کے لئے گھڑا گاڑی والا ڈھوننا تھا جن نے حمدہ کے آگے ہاتھ جوڑے اور کہا آقا آقا سخیہ سنڈ ڈی فی آفیس سے صاف پانی کا ٹینگل لے آتا ہوں کہاں آپ گھڑا گاڑی کا گندہ پانی استعمال کریں گے حمدہ نے ہاں میں سر ہلایا تو جن جلدی سے وہاں سے قائب ہو گیا بلکہ یوں کہنا چاہیئے تھے کہ جن نے اپنی جان بچائی بلکہ جن آرام کرنے چلا گیا اور حمدہ بھی پانی وغیرہ بھرنے لگ گیا جب فارغ ہوا تو حمدہ کی ماں نے گاہے کھانا بنانا بزار سے سامان لے کر آو حمدہ اچھا کہہ کر اپنے کمرے میں آکے چراخ پر رگڑا ایک گڑ گڑٹ کی آواز سنائی دی اور اپنا کھے کھے لگاتا ہوا جن نبودار ہوا ہاں ہاں ہاں ہاں اس نے چھپ کر کہا کیا حکم ہے میرے آقا تو حمدہ نے اس سے کہا کہ بزار سے آلو پالک لے آو امہ کو کھانا بنانا ہے بڑی بھوک لگی ہے جن پالک آلو کا سننے کے بڑا شرم سار ہوا ہے اس نے کہا آقا کچھ اچھا لے کر آتا ہوں مگر حمدہ کی کنجوسی آڑے آ گئی اس نے کہا نہیں تم یہی لے آؤ خیر کھانا وغیرہ کھا کر حمدہ نے چراف کو ایک بار پھر رگڑا جس پر جن کھسیانی سی ہسی ہسکا ہوا نبودار ہوا اور ہاتھ بان کر کھڑا ہو گیا حمدہ نے جن کو کہا کہیں سے نیٹفلیکس کا پارسوڑ مل جائے تو مزا آ جائے جن یہ سن کے چونک پڑا اس نے حمدہ سے کہا یہ نیٹفلیکس کیا ہے حمدہ نے اسے کمپیوٹر کھول کر دکھائے اور کچھ کلپ دکھائے تو جن بولا اچھا یہ ہے اس کو تو جادوی گولہ بولتے ہیں میں آپ کو نیٹفلیکس سے بھی اچھی چیز دکھاؤں گا پریوں کو دکھاؤں گا جن نے ایک مائنی فیس کہا لگایا لیکن حمدہ نے کہا وہ اس کو نیٹفلیکس کا ہی پاسپورٹ لا دے تو جن نے کہا آقا تم بتاؤ کہاں سے ملے گا حمدہ نے اپنے دشمن عمر کا بتایا جس کے پیسے حمدہ نے دبا رکھے تھے خیال جن جایا اور حمدہ کو نیٹفلیکس کا پاسپورٹ لا کر دیا حمدہ بڑے مزے سے مانی ہائس کا سیزن 5 دیکھنے لگ گیا اور خود کو تصور میں پروپیسر سمجھنا شروع کر دیا جن کو چھٹی دے بھی پھر جن کے ذمہ حمدہ نے نیٹفلیکس سری لانسر اپ ورک سادہ پے میزان بیک سری لانسر اکاؤنٹ کی حفاظت کی سمیداری لگا دی جن نے بیشارگی سے سر لیا اور اپنے ماضی کے بارے میں سوچنے لگ گیا کہاں تو عالدین کے وقت میں وہ سونے چاندی ہیرے جوارات پر بڑے محلوں کی حفاظت کیا کرتا تھا اب حمدہ کے کنگلے اکاؤنٹ کی حفاظت جس میں بامشکل لاکھ روپے کما ہوتے تھے جن نے کئی بار حمدہ کو ڈیفینس بحریہ ٹاؤن میں کنگلہ دینے کو گاہ مگر حمدہ کنجوسی کے مارے وہاں نہیں جاتا تھا اس کو سلجانی ٹاؤن ہی اچھا لگتا تھا وہ جن جو کبھی عالدین کو کیسے پوری دنیا گھومایا کرتا تھا اب حمدہ کے لئے فوٹ پانڈا کا رائیڈر بن گیا جس میں بڑے سے بڑا آرڈر بھی ہزار روپے سے زیادہ کا نہیں ہوتا تھا حمدہ خود بھی ترقی نہیں کرتا بلکہ آہستہ آہستہ اس نے جن کو بھی ناکارہ کر دیا وہ جن جس کی عالدین کے زمانے میں بڑی دہشت تھی جو دنیا کو اپنی اونیوں پہ ناشاتا تھا اب آہستہ آہستہ انڈین فلموں کا رامو کاکا جیسا ہونے لگ گیا گھرے لو ملازم جیسا ہر دن مہینے گزرتے رہے وہ حمدہ کی خدمت میں اسی طرح مشہور رہا اس کے کپڑے دھوتا اسٹری کرتا برصنت مانشتا نکڑ کی دکان سے سیگریڈ ویلو فلٹر والی نسوار خرید کے لاتا اور پھر اس کی نظروں سے اوجل ہو جاتا اس دوران جن میں ایک تبدیلی رونما ہوئی اس کی جسامت پہلے سے کم ہو گئی اس کا قد بھی کم ہوتا گیا اس کے کہہ کہوں کی گونج بھی ختم ہو گئی ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی حمزہ کے چراغ رگڑنے پہ وہ کاندے پہ رومال بچھے نمودار ہوتا کیا حکم ہے میرے آقا کے بجائے جن میں صاحب جی کہتا یہ جن حمزہ کے ساتھ رہ رہ کے آہستہ آہستہ اپنی پہچان بھولتا جا رہا تھا اب الادین کے جن کی نکاہت روز با روز بڑھتی جا رہی تھی ایک وقت آیا اس کا قد حمزہ جتنا ہو گیا اس کے بازو مشرق اور مغرب میں پھیلے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ سکڑ کے حمزہ کے جتنے ہو گئے رفتہ رفتہ اس کی کمر میں درد ہونے لگ گیا پٹھے درد کرنے لگے انشور دوٹ پیتا اور وٹامن کی ٹیبلیٹ اور سنیٹ ٹی کھاتا تاہم اب بھی وہ اپنے صاحب جی کی خدمت میں مشہور رہتا اب وہ پہلے جیسے خطرناک جن نہیں تھا بلکہ وہ اپنی شناک تک بھول گیا تھا اب اسے بلانے کے لئے چاراغ رگڑنے کی ضرورت نہ تھی وہ کاندے پر رمال رکھے دوتی بنیان پہنے ایسی ہی سب کی نظروں کے سامنے پڑا رہتا اس کا قد حمدہ سے بھی چھوٹا ہو گیا تھا چنانچہ اب حمدہ نے اسے بلانا ہوتا تو اسے اوے چھوٹے ادھر آؤ کہکے آواز دیتا ایک دن جن نے حمدہ سے کہا صاحب جی اگر آپ اجازت دیں تو میں کہیں اور کام تلاش کرلوں آپ جو فری لون سر سے کم آتے ہیں اس میں آپ کا اپنا گزارہ بھی نہیں ہوتا حمدہ یہ سن کر تھوڑا چھینگ گیا پھر اس نے رضا مندی کے اظہار کے لئے ہولے سے گردن ہلائی پر ملازم ہے اور اوے چھوٹے کی آواز سن کے تھکے تھکے قدموں کے ساتھ ایک میز سے دوسری میز کی طرف جاتا ہے کبھی کبھی اسے اپنا ماضی یاد آتا ہے اس کی آنکھیں بھرا آتی ہیں مشرق اور مغرب میں پھیلے وے بازو آسمان سے باتے کرتا ہوا قد بڑے بڑے بادشاہوں کے محلات کو اپنے ہتیلی پر اٹھانے والا جن وہ دوبارہ جن میں آنے کے لئے اپنی تمام قوتیں جمع کرتا مگر اپنی اس تمام کوشش کے نتیجے میں وہ سگرٹ کے دھومے جتنے مرغولے میں اپنی دھکتی کمر پر ہاتھ رکھے نمودار ہوتا اس پر وہ مارے ندامت کے سر جھکا لیتا اور دھیلے سے کہتا ہے میں بڑا کررو فر والا جن تھا مگر حمزہ جیسے ناکارہ نے مجھے کمزور کر دیا پھر ایک دم سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا کہیں کسی نے سن تو نہیں لیا کہ وہ بڑے کررو فر والا جن تھا